ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی،12نومبر:اجودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ ہندوشدت پسند تنظیم 'ہندو مہاسبھا' نے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر رام مندر کارسیوکوں کے خلاف درج مقدمات کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپا نی کے ذریعہ یہ خط لکھا گیا ہے۔سوامی چکرپانی رام مندر معاملے میں ایک فریق بھی ہے۔
مہاراشٹر میں صدرراج نافذ کرنے کی سفارش، مودی کابینہ نے دی منظوری، اب شیوسینا اٹھائے گی یہ قدم
بابری مسجد معاملہ پر فیصلہ کے وقت کچھ ایسا تھا گجرات فساد متاثرین کے خوف کا عالم، بیان کیا درد
رام مندر تعمیر:اب آپس میں ہی لڑنے لگے سادھو سنت ،یہ ہے وجہ
بتا دیں کہ سال 6 دسمبر، 1992 میں لاکھوں کی تعداد میںشدت پسندوں نے اجودھیا پہنچ کر بابری مسجد کو گرا دیا تھا۔ اس دن مشتعل ہجوم نے چند گھنٹوں میں مسجد کے ڈھانچے کو گرا دیا تھا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے اور کئی لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ اس معاملے میں حکومت نے کئی کارسیوکوں کے خلاف مقدمے درج کیا تھا، جن لوگوں کے خلاف کیس درج ہوئے تھے، ان میں 47 بی جے پی لیڈر اور سینکڑوں شدت پسندوں کے نام شامل ہیں، جو لوگ اس معاملے میں ملزم ہیں ان بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی وغیرہ کا نام نمایاں ہے۔ اس معاملے میں اپریل 2020 تک فیصلہ آنے کا امکان ہے۔
وشو ہندو پریشد، شیوسینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں نے مل کر مسجد کو مسمار کر دیا تھا، سمجھا جاتا ہے کہ بابری مسجدانہدام کی بنیاد سال 1990 میں بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی کے ذریعہ نکالی گئی رتھ یاترا کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی۔ 6 دسمبر 1992 کو صبح کے وقت بی جے پی اور وی ایچ پی کے کچھ لیڈروں نے متنازعہ ڈھانچے کے پاس پہنچ کر پوجا کی تھی۔ ان لیڈروں میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی کے ساتھ کئی سادھوسنت بھی شامل ہوئے تھے، ان کے پیچھے لاکھوں کی تعداد میں ہندوشدت پسند بھی تھے۔ دوپہر کو کچھناراض کارسیوک سیکورٹی بیریکیٹ توڑکر مسجد کے گنبد تک پہنچ گئے اور اس کے ساتھ ہی شدت پسندوںکی بھیڑ نے مسجد کو گرانا شروع کر دیا۔