ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی 15نومبر:جماعت اسلامی حلقہ دہلی کی شعبہ خواتین نے میڈیا میں خواتین کے موضوع پر ایک مباحثہ کا انعقاد مرکز جماعت اسلامی ہند، ابولفضل انکلیو، اوکھلا میں منعقد کیا۔ جس میں مختلف میڈیا میں کام کر رہی خواتین جرنلسٹ کے علاوہ میڈیا میں زیر تعلیم طالبات اور دیگر خواتین نے حصہ لیا۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے شعبہ خواتین کی اسسٹنٹ سیکریٹری رحمت النسا ء نے کہا ”آج خواتین اپنے کیرئیر کے طور پر میڈیا کا انتخاب کر رہی ہیں لیکن ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کا پورا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اکثرخواتین جرنلسٹ کو ان کی صلاحیتوں کے مقابل کمتر کاموں میں لگا دیا جاتا ہے اور کم اہمیت والے بیٹس دے دئے جاتے ہیں“۔
نیشنل ہیرالڈ کی خواتین جرنلسٹ ایشلِن میتھیو نے میڈیا مین خواتین کی تعداد پر اعداد و شمار کی روشنی میں کہا کہ خواتین جرنلسٹ شاید ہی کبھی سیاسی اہمیت کی اہم اور چیلنجنگ ایشو پر رپورٹ کرتی ہے۔ انھوں نے سروے رپورٹ کی روشنی میں کہا کہ خواتین رپورٹر س صرف 32فیصد ہی خبریں کوور کر پاتی ہیں لیکن اسی وقت یہ بھی ایک خوش آئند پہلو ہے کہ کچھ خواتین صحافی نے خود کے لئے جگہ بنائی ہے اور خالص سیاسی ایشو پر رپورٹنگ کی ہے۔ دی ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ خاتون صحافی اریبہ فلق نے میڈیا کے ذریعہ خواتین کی کردار کشی اوراسے پیش کرنے کے طریقے پر سوال اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ٹی وی کے اشتحارات عورتوں کو ایک مادی وسائل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ان کے اصل مسئلے اور ایشوز پر ٹھیک سے بات نہیں کی جاتی۔ میڈیا اداروں میں تفریق کا عام ماحول ہے جس سے انھیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
رامپوردہشت گردانہ حملہ:بے قصور فہیم انصاری نے سنائی درد بھری داستان
مو لاناابوالکلام آزاد کی تعلیمی خدمات پر مزاکرہ، دانشوروں نے پیش کی خراج عقیدت
دہلی وقف بورڈکے چیئرمین نے اپنے ملازمین کواس کام کیلئے کیا خبردار،ہوگی سخت کارروائی
تہلکا میگزین کی ذکیہ جعفری نے خواتین صحافی کے کام کے دوران ہونے والی پریشانیوں اور مشکلات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میڈیا کے ادارے کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے یہاں کام کر رہی صحافی حضرات کی سیکورٹی کو بہتر بنائے اور اسے ہر طرح سے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ خواتین کی آواز تبھی سنائی دے گی جب اس کی نمائندگی پارلیمنٹ اور عدلیہ میں بہتر انداز سے ہو ساتھ ہی لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ صحافی عذمہ اشرف نے مسلم اور دیگر کمزور طبقہ کے صحافیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لئے آزمائشوں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے۔ گھر سے آفس اور اپنے کاموں کے تمام مقامات پر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مییڈیا کی طالبہ عائشہ اور فرخندہ نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین حجاب پہن کر کیوں نیوز ریڈر اور اینکرنگ نہیں کر سکتی؟ کیوں مسلم خواتین کو میڈیا میں جانبدارانہ طریقہ سے اس مذاکرہ میں حصہ لیتے ہوئے ہوئے خواتین شرکا ء نے کہا کہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ایسی گفتگو ہمیشہ منعقد کرنی چاہئے ساتھ ہی عورتوں کو اپنی اسلامی شعار کے ساتھ اس میدان میں بہتر انداز سے نمائندگی کرنی چاہئے۔آج عورتوں کو جس طریقے سے میڈیا پیش کر رہی ہے وہ کافی تکلیف دہ ہے ساتھ ہی مسلم خواتین کو صرف چند ایک مسئلے تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔ پروگرام میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہمیں تعلیم کے میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیا کے میدان میں عورتوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔ پروگرام کی نظامت جوویریا ریمی نے کی۔ حلقہ خواتین کی مرکزی سیکریٹری عطیہ صدیقہ، دہلی کی سیکریٹری یاسمین، جی آئی او کی صدر نکہت فاطمہاور دہلی کی صدر شائستہ رفت نے بھی پروگرام میں شرکت کی۔