سپریم کورٹ کے سابق جج نے بھی بابری مسجد معاملے میں سپریم فیصلہ پر اٹھایا سوال


ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی،10نومبر: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس اشوک گنگولی نے اجودھیا معاملے میں آئے فیصلے پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے۔ ہفتہ کو گنگولی نے کہا کہ اجودھیا معاملے پر آئے فیصلے نے ان کے اندر شک پیدا کر دیا ہے اور فیصلے کے بعد وہ کافی پریشان ہو گئے تھے۔ غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں والی آئین بنچ نے فیصلہ رام مندر کے حق میں دیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 2.77 ایکڑ زمین پر 'رام مندر' بنے گا اور حکومت کو مسلمانوں کے لئے متبادل کے طور پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔'دی ٹےلی گراف ' کے مطابق 72 سالہ جسٹس گنگولی نے کہا کہنسلوں سے اقلیتوں نے دیکھا کہ وہاں پر ایک مسجد تھی۔ جسے منہدم کیا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس کے اوپر ایک مندر تعمیرکیا جائے گا۔ اس بات نے میرے دماغ میں شک پیدا کر دیا ہے۔ آئین کاطالب علم ہونے کی وجہ سے اسے قبول کر پانا میرے لئے کافی مشکل ہے۔
جسٹس گنگولی نے کورٹ کے فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جگہ نماز ادا کی جاتی ہے اور نماز ادا کرنے والوں کی جگہ-خاص پر مسجد ہونے کا ایمان ہے، تو اسے چیلنج نہیں دیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر 1856-57 میں نہیں، لیکن یقینی طور پر 1949 کے بعد نمازیں ادا کی گئی ہیں، اس کا ثبوت بھی ہے۔جب ہمارا آئین وجود میں آیا، تب وہاں نماز ادا کی جا رہی تھی، جس مقام پر نماز ادا کی جاتی ہے، اگر اس جگہ کو مسجد کی منظوری دی جاتی ہے، تو اقلیتی برادری کو اپنے مذہب کی آزادی کی حفاظت کا حق حاصل ہے، یہ آئین کے ذریعہ دیا گیا بنیادی حق ہے۔


یہ بھی پڑھیں


ہندوؤں کے اس بڑے مذہبی رہنما نے اجودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے کیا انکار


سپریم کورٹ کے فیصلے کا کچھ حصہ ہمارے حق میں ہے، مسلمان بورڈ کی ہدایات کا انتظارکریں:مولانا ولی رحمانی


بابری مسجد حق ملکیت :جانئے! فیصلہ کے بعد مولانا سید ارشد مدنی کا کیا ہے رد عمل


نہ نرموہی اکھاڑا، نہ سنی وقف بورڈ، نہ ہی رام جنم بھومی ٹرسٹ، جانئے کس کو ملی متنازعہ زمین
'دی ٹیلی گراف'کے مطابق جسٹس گنگولی نے کہا کہ آج پھر ایک مسلمان کیا دیکھتا ہے؟ اتنے سالوں تک وہاں (اجودھیامیں) ایک مسجد کھڑی تھی، جسے مسمار کر دیا گیا۔ اب عدالت نے اس کی جگہ نئی تعمیر کو ہری جھنڈی دی ہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ جگہ رام للا کی ہے۔ کیا سپریم کورٹ صدیوں پرانے زمین کا مالکانہ حق کا فیصلہ کرے گا؟ کیا سپریم کورٹ اسے بھول جائے گا کہ جب آئین وجود میں آیا، تب وہاں ایک مسجد کافی وقت سے تھی؟ جسٹس گنگولی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور اس کے دفعات کی حفاظت کرے۔جسٹس گنگولی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آئین سے پہلے وہاں کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وہاں ایک مسجد تھی، ایک مندر تھا، ایک بدھ مت ستوپ تھا، ایک چرچ تھا ... اگر ہم اس طرح سے فیصلے دینا شروع کریں گے تو کافی سارے مندر اور مسجد تباہ کرنے پڑ جائیں گے، ہم روایتی حقائق کے مطابق نہیں چل سکتے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اس دوران جسٹس گنگولی نے رام کے وجود پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ رام کون ہیں؟ کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کوئی حقیقت ہے؟ یہ صرف آستھا اور یقین کا معاملہ ہے۔