مولانا کے خیال میں نہرو کی جگہ سردار پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو تقسیم نہ ہوتی
فیروز بخت احمد
محفل میں مدبّر تھے مفکّر تھے وہ
مسجد میں محدّث تھے، مفسّر تھے وہ
اس دور کے سرگرداں مسلمانوں میں
اوّل تھے ابوالکلام، آخر تھے وہ
۔متین امروہوی
متین امروہوی کا مولانا آزاد پر یہ شعر بڑا موزوں ہے کیوں کہ واقعی میں اوّل تھے ابوالکلام اور آخر تھے وہ۔ مولاناابوالکلام آزادتقسیمِ ہندوستان سے قبل اور اس کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ملک کے بٹوارے کے لئے مطلق بھی رضامندی ظاہر نہیں کی۔ یہاں تک کہ گاندھی جی اور نہرو تک آخر میں چند مجبوریوں اور مثلحتوں کے تحت تقسیم کے لئے راضی ہو گئے تھے مگر مولانا آزاد آخر تک ایک مضبوط چٹان کی طرح اڑے رہے کہ ہندوستان کے ٹکڑے نہ ہوں۔ مگر یہ اُنکی زندگی کی سب سے بڑی مایوسی اور ناکامیابی تھی کہ تقسیم کو وہ 15اگست 1947ءکے بعد نہ روک سکے۔ بہت کم لوگ اِس بات کو جانتے ہیں کہ جس قسم کی جدوجہد مولانا نے تقسیم کو روکنے کی کی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ جیسی گاندھی، نہرو یا پٹیل نے کی تھی۔ آخر میں مولانا اکیلے ہی رہ گئے تھے کیوں کہ وہ ہندوﺅں اور مسلمانوں دونوں سے ہی کٹ گئے تھے۔ مسلمانوں سے اس لئے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کے قیام کی مخالفت کر کے انہوں نے اچھّا نہیں کیا، اور ہندوﺅں سے اس لئے کیوں کہ 15اگست کو مولانا بہت افسردہ تھے کہ ہندوستان بٹ گیا، انہوں نے شادیانوں اور تقریبات میں حصّہ نہیں لیا۔ مگر باوجود اس کے آج بھی تمام ہندوستانیوں ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی نگاہ میں ان کی عزّت بے پناہ ہے اور مولانا کی قربانیوں سے یہ لوگ بخوبی واقف ہیں۔
پارٹیشن کو مولانا آزاد ہولناک خیال کرتے تھے۔ ان کے نذدیک مسلمانوں کے مسائل کا حل پاکستان نہ تھا۔ پاکستان قدرتی طور پر تمام مسلمانوں کا مسکن نہ بن سکتا تھا اور نہ ہی تقسیم کے بعد ہندوستان و پاکستان دوست رہ سکتے تھے، ایسا اُن کا خیال تھاجو موجودہ حالات دیکھتے ہوئے بہت حد تک ٹھیک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر پارٹیشن نہ ہوتا تو شاید کشمیر میں دہشت گردی کا مسئلہ بھی نہ ہوتا مولانا کے نزدیک اصل مسئلہ فرقہ واری نہ بلکہ مُعاشتی تھا اور مسئلہ جماعتوں کے بیچ اختلافات کا نہیں بلکہ طبیعتوں کے درمیان پائے جانے والے اِختلافات کا تھا۔ مولانا نے اپنے سیاسی ساتھیوں پہ زور دیا کہ تقسیم کا نتیجہ مفید نہ ہوگا، نفرت بالا آخر باہمی جنگ کا سر آغاز ہوگی۔ جوچیز نفرت پر بن رہی ہو اس کے متعلّق کوئی مثبت رائے قائم کرنا مشکل ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انجام کیا ہوگا، دونوں کے مابین سردجنگ چلتی رہے گی۔ مولانا لکھتے ہیں، ”میں تقسیم کے ہمیشہ خلاف تھا کیوں کہ میرے خیال میں مسلمانوں کے لئے اس میں پر اعتبار سے خسارہ تھا، بلکہ اُن کا وجود خطرے میں پڑتا تھا اور بیس پچّیں سال کے اندر اندر تقسیم کے مُرجھا جانے کا امکان تھا۔“ مولانا ایک وقت پنڈت جی سے تقسیم ہند کے سلسلہ میں ناراض بھی ہو گئے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر سردار پٹیل نہرو کی جگہ ہوتے تو ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا۔
ہندوستان کے مسلم رہنماﺅں میں بہادر شاہ ظفر کے بعد مولانا واحد ایسے لیڈر تھے جنہوں نے آزادئی ہند کے لئے ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کیا تھا۔ انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ ایک لمحہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ انگریزوں کے غلام رہ کر مسلمان ہندوستان میں زندگی بسر کریں، یہ جائز نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے ”الہلال“ کے ذریعے مسلمانوں کو یاد دلایا تھا کہ آزادی کی راہ میں قربانی اور جال فروشی ان کا قدیم اسلاحی ورثہ ہے۔ ان کا اسلامی فرض یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کو اس راہ میں اپنے پیچھے چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی صدائیں بیکار نہ گئیں۔ مسلمانوں نے اب آخری فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور جین بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلائیں گے۔ بقول اُن کے فرنگیوں کی یہ قوم تیس کروڑ انسانوں کی پیہم التجاﺅں پر بھی اسلامی خلافت کی پامالی سے باز نہیں آتی۔ وہ اپنے تمام وعدوں کے توڑ دینے میں کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ جب انگریزی بیوروکریسی نے دیکھا کہ یہ آدم تو تمام ہندو اور مسلمانوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے تو یہ بات وہ برداشت نہ کر سکے۔ اس لئے مولانا کے اخبار 'الہلال' کو ضبط کر لیا گیا اور اس کی تمام ضمانت کا پیسہ بھی ضبط ہو گیا۔پھر جب (البلاغ) کے نام سے دوبارہ جاری کیا گیا تو 1916ءمیں انہیں نظر بند کر دیا گیا۔ بقول انگریزوں کے مولانا سب سے زیادہ خطرناک آدمی تھے کیوں کہ وہ تمام مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف ہندوﺅں سے اتفاق کرنے کی رائے دے رہے تھے اور جس کا ساتھ ذی روح ہندوﺅں اور مسلمانوں نے دیا تھا۔
تقسیم کو آخری وقت تک روکنے کی کوشش رہی مولانا کی۔ مولانا سے جب کسی نے دریافت کیا کہ پارٹیشن کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں تو انہوں نے کہا، ”کیا تلوار سے پانی کے دھارے کو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟!“ جس قسم کا پروپگنڈہ مسلم لیگ اخباروں میں مولانا کے خلاف کر رہی تھی وہ سخت تکلیف دہ تھا۔ روزنامہ ”ڈان“ (کراچی) میں ایک کارٹون میں مولانا کو ہندوﺅں کے ساتھ وندے ماترم گاتے ہوئے دکھایا گیا، پھر یہ کہ وہ ماتھے پر ٹیکا لگوا رہے ہیں، اور آخر میں یہ دکھایا گیا کہ وہ مندر میں پوجا کر رہے ہیں۔ مولانا کو مسلمانوں سے الگ کرنے کے لئے لیگ نے ہر چال اور ہر حربہ اپنایا اور وہ اس میںکامیاب بھی ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں نے مولانا کو وہ سب کچھ کہا جو کہا جا سکتا تھا۔ کوئی بھی نازیبا بات ایسی نہیں رہ گئی تھی جو مولانا کو نہ کہی گئی ہو۔ کون ان کو کیا کہہ رہا ہے، اس کی پُراہ کئے بغیر مولانا نے ماﺅنٹ جیٹن سے کئی ملاقاتیں کیں مگر ملک کی تقسیم سے متعلق اس نے اپنی بات کو بالاتر رکھا اور ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کی تمام تدبیریں مولانا کو ناکام ہوتی نظر آئیں۔ یہاں تک کہ گاندھی نے جی جن پر ان کو پورا بھروسہ تھا، مولانا کو نا امید کر دیا ۔ تقسیم کے لئے مہاتما آخر میں تیاّر ہو گئے۔
ہندوستان کی آزادی14اگست کی آدھی رات کو ٹھیک بارہ بجے شروع ہوئی۔ تقریبات ہوئیں، جشنِ چراغاں ہوا، توپوں کی سلامی ہوئی مگر ان سب چیزوں میں مولانا کا دل نہ تھا، وہ تو بجھ چکا تھا، 15اگست کو ارونا آصف علی نے انہیں زارو قطار روتے ہوئے دیکھا۔ سبھی لوگ یہاں تک کے اُن کے قریب ترین دوست نہرو بھی سرکاری انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ مگر مولانا کا دل یعنی ہندوستان دو حصّوں میں کٹ چکا تھا۔ ایک ہندوستان، متحد اور بڑا ہندوستان اور ہندو مسلم دوستی کا ضامن ہندوستان پارٹیشن کا شکار بن گیا تھا، فرقہ وارانہ ذہنیت کا لقمہ بن رہا تھا اور ان کے خوابوں کی دنیا اُجڑ چکی تھی۔ جشنِ آزادی میں وہ شریک تو ہوئے،مگر آدھے دل سے کیوں کہ وہ مشن جس کے لئے وہ تمام عمر کوشاں رہے زندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ کسی بھی قسم کی قربانی سے انہیں ہندوستان کی تقیم کو روکنے سے گریز نہ کیا، جیلوں میں اذیت جھیلی، اپنی شریک حیات زلیخا بیگم کے جنازے تک میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ سب قربان کرنے پر بھی انہیں مسخ شدہ کٹوتی کیا ہوا ہندوستان ہی حاصل ہوا۔ وہ اس قسم کی آزادی ہرگز نہیں چاہتے تھے۔
اُن کو مسلمانوں سے متعلق شکوہ تھا کہ وہ آندھی کی طرح اُٹھتے تھے، بادل کی طرح چھا جاتے تھے اور پھر غبار کی طرح بیٹھ جاتے تھے۔ انہیں مسلمانوں سے عمومی طور پہ شکایت تھی کہ وہ تاریخ و تجزیہ کے انسان نہیں، افتاد و ہنگامہ کی مخلوق ہیں اور پہچان پر جیتے ہیں۔ ہندو پاک کی آزادی خون میں ڈوب کر طلوع ہوئی۔ فرقہ وارانہ فسادات برطانوی مِشن کے زمانہ میں ہی شروع ہو چکے تھے۔ جب مشن ہندوستان میں تھا تو اس نے بھی اس جانب عدم توجّہی کا ثبوت دیا کہ چلو آپس ہی میں مر کٹ رہے ہیں، نوا کھالی، سلہٹ، بہار، گڑھ مُکیشر، امرتسر، لاہور، راولپنڈی، غرض کہ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں خون نہ بہا ہو۔ مولانا نے ان دنوں دہلی کی شاہی جامع مسجد میں مسلمانوں کے فقید المثال کیلین مجروح و مضطرب اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ایک دل گداز تقریر کی، “....میں نے تمہیں پکارا، تم نے میری زبان قطع کر لی۔ میں نے قلم اُٹھایا، تم نے میرے ہاتھ قلم کر دئے۔ میں نے چلنا چاہا، تم نے میرے پاﺅں توڑ دئے۔میں نے کروٹ لینا چاہی، تم نے میری کمر توڑ دی۔ تم نے غفلت و انکار کی وہ تمام ستیں تازہ کر دیں جو روبہ اِعطاط قوموں کا مقدّر ہوتی ہیں۔
آج نہ صرف مسلمان کو بلکہ ہندوستان کی تمام قوموں کو مولانا آزاد جیسے رہنما کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی ہی تقریر کی ضرورت ہے جو انہوں نے دلّی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے کی تھی اور جس کا ردِّ عمل یہ ہوا تھا کہ مسلمانوں کی ٹوٹتی ہوئی ہمّت سنبھل گئی تھی مایوسی دور ہونے لگی تھی، اُن کے حوصلے اور عزائم جاگ اُٹھے تھے اور ایک بڑے طبقہ کا سوچنے کا ڈھنگ بدلا تھا، انداز بدلے تھے۔ مسلمانوں کے فیصلوں میں تبدیلی آئی۔ آج ملک کا صالح ذہن محسوس کرتا ہے مولانا آزاد ایک محترم مسلمان تھے اور بہت بڑے مُحِب وطن اور قومی رہنما بھی تھے۔ ان کا سیاسی نظریہ ہندو مسلم اتحّاد کا امین بھی رہا اور ہندوستان کی جنگ آزادی کی راہ کے لئے روشن چراغ کا کام بھی انجام دیتا رہا ہے اور آج بھی موجود ہے۔ آئندہ بھی مُلک کی سالمیت اور ترقّی کے لئے اُن کے افکار و خیالات، اُن کے حوصلے و عزائم، ان کا صبر و ضبط اور جنگِ آزادی کی منزلوں میں اُن کے نقشِ قدم ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے اور مضبوط اور خوشحال ہندوستان بنانے میں معاون ثابت ہوتے رہیں گے۔ مولانا ایک عالم دین، مُفکّر، دانشور، ادب، صاحب طرز انشاد پرداز کی حیثیت سے نہایت بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ گو ان کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ سیاست کی نذر ہوا، پھر بھی' انکی علمی، ادبی، سیاسی، مذہبی اور سماجی تحریر میں انہیں صنف اوّل کے مصنّفین میں جگہ دلانے کے لئے کافی ہیں۔ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا اور حقائق سامنے آتے جائیں گے ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ عظیم سے عظیم تر ہوتے جائیں گے۔
فون : 6923211, 6934517, 9810158652