رضوان سلمانی / ہماری دنیا بیورو
سہارنپور:وطن عزیز ہندوستان سے انگریزوں کے ناپاک قدم اکھاڑنے اور ہندوستان کو آزادی کی دولت سے مالا مال کرنے میں ہندوستان کی مختلف تنظیموں ، جماعتوں اور دینی مدارس کی بڑی نمایاں خدمات رہی ہیں ،علماءحق کی اس سلسلہ میں جانفشانی اور ان کے ایثار و قربانی کی مستقل ایک تاریخ ہے ،لیکن تاریخ کا یہ باب اب تک نگاہوں سے اوجھل تھا کہ ایک سو ترپن سالہ قدیم علمی و دینی درسگاہ جامعہ مظاہرعلوم اور اس کے فیض یافتگان کی خدمات بھی اس باب میں تاریخ کا حصہ ہیں ،جامعہ مظاہرعلوم کے امین عام (سکریٹری) مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے آٹھ سال کی علمی جدو جہد اور عرق ریزی کے بعد مکمل چار جلدوں میں ایک تاریخ مرتب فرمائی ہے جس کا حسنِ آغاز اور تقریب افتتاح آج جامعہ کے وسیع ہال زکریا منزل میں جمعیة علماءہند کے صدر مولانا سید محمد ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا ۔
صدر اجلاس نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ماضی میں ہمارے اکابر صرف تعلیم و تعلم سے وابستہ نہیں رہے بلکہ ملت کے لئے اور اسلام کی بالا دستی کے لئے میدان عمل میںبھی آئے ،انھوں نے شیخ الہند کا ایک ملفوظ سنایا کہ ”جو لوگ حجروں میں بیٹھ کرصرف تعلیم و تعلم کو ہی اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں وہ اسلام کے صاف شفاف چہرے پر داغ لگاتے ہیں،مولانا مدنی نے کہا کہ تحریک آزادی میں علماءکا کردار اب ضرورت ہے کہ باقاعدہ ہمارے مدارس میں داخل نصاب کیا جائے ۔
اس اجلاس کی نظامت جامعہ کے استاذ مولانا مفتی محمد جاوید سہارنپوری نے کی ،جامعہ کے استاذ مولانا قاری سید محمد عمار الہاشمی کی تلاوت کلام پاک اور حافظ محمد عامر سہارنپور متعلم جامعہ کی نعت سے اس کا آغاز ہوا ،پورے ملک کی اہم ترین شخصیات اس تقریب میں موجود تھیں ،مہمانان کرام کے استقبال اور کتاب ”تحریک آزادی ہند اور جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور“کے تعارف پر مشتمل ایک وقیع افتتاحی خطبہ مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے پیش کیا ،سہارنپور کے مشہور خوشنویس اسلام انجم کی اس اجلاس کی مناسبت سے لکھی ہوئی بہترین نظم مولوی محمد ممتاز سہارنپور نے پیش کی ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے دوران خطاب کہا کہ یہ دونوں ادارے دارالعلوم دیوبند اور مظاہرعلوم اپنے آغاز سے لے کر اپنے تمام ارتقائی ادوار میں علمی و فکری ہم آہنگی کے ساتھ تاریخ کا حصہ ہیں ، تحریک آزادی میں دارالعلوم دیوبند کے اکابر اگر پیش پیش تھے تو مظاہرعلوم کے فیض یافتگان کی بھی ایک فہرست اس سلسلہ میں موجود ہے جس کی تفصیلات مولانا سید محمد شاہد الحسنی کی تازہ ترین کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے ،مہتمم صاحب نے ایک بات یہ کہی کہ اگر اس کتاب کی ہندی زبان میں تلخیص کرکے اسے شائع کیا جائے تو استفادہ کا دائرہ وسیع ہوگا اور کتاب کے مضامین اور تاریخی حقائق سے برادران وطن کی واقفیت سے بہت سارے ملکی و ملی مسائل حل ہونے کی قوی امید ہے ۔
صدر جمعیة علماءہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے مصنف کتاب کو اس عظیم تاریخی کارنامے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ دین اور سیاست دونوں کو ایک ساتھ لے کر ملک و ملت کی تعمیر میں کس انداز سے خدمات انجام دی جاتی ہیں یہ کتاب اس کا واضح ثبوت ہے ۔ مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع صاحب نے کہا کہ ”تحریک آزادی میں مظاہرعلوم کی خدمات کا تعارف پوری قوم پر قرض تھا اسے فرض کفایہ کے طور پر ایک ابنِ مظاہر نے ادا کردیا، طاقتور تحریک ہمیشہ صحتمند ذہن جنم دیتی ہے ،مظاہرعلوم کے جیالوں کی تاریخ کا منصہ ¿ شہود پر آنا اس بات کی علامت ہے کہ صحت مند اذہان اب بھی یہاں جنم لیتے ہیں ،دنیائے ادب کے مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی نے اس کتاب کے اختصار اور ہندی ترجمہ کی بابت مولانا سید محمد شاہد الحسنی کو توجہ دلائی اور اپنا مشہور منظوم سلام سنایا۔
جماعت اسلامی ہند کے سابق جنرل سکریٹری مولانا رفیق احمد قاسمی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم صرف اپنی حالتِ زار کا مرثیہ نہ پڑھیں بلکہ یہ عہد کریں کہ اپنے ماضی کی تاریخ اور اپنے بڑوں کے کارنانوں سے اپنے اندر عملی بیداری پیدا کریںگے ۔اور یہ کتاب اس کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ان حضرات کے علاوہ جامعہ مظاہرعلوم کے ارکان شوری مولانا مفتی محمد معصوم ثاقب رائیچوٹی،مولانا مفتی سبیل احمد چنئی،مولانا روح الحق تمل ناڈو ،حاجی فضل الرحمن علیگ ممبر آف پارلیمنٹ نے بھی اپنے تا ¿ثرات بیان کئے اور مولانا محمد شاہد الحسنی کے اس علمی و تاریخی کارنامے پر ان کو مبارکباد دی ۔ اس اجلاس کے مدعو خصوصی دارالعلوم ندوة العلماءکے ناظم اور آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے صدر مولانا سید محمد رابع حسنی اپنی مشغولی کے سبب اجلاس میں شریک نہیں تھے لیکن ان کا بھیجا ہوا پیغام ان کے فرستادہ مولانا محمود حسن حسنی ندوی نے پڑھ کر سنایا ،اسی طرح دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو ¿ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی بھی شریک اجلاس نہیں تھے لیکن ان کا پیغام ان کے حکم سے مولانا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے پڑھ کر سنایا ،آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی بھی اپنی علالت کی وجہ سے موجود نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنا پیغام ارسال کیا جس میں انھوں نے اس کتاب کو ایک گم گشتہ تاریخ کی باز یافت بتلایا اور یہ بھی تحریر کیا کہ مظاہرعلوم کی خدمات کا ایک اور پہلو ماشاءاللہ مولانا سید محمد شاہد الحسنی کے قلم سے منظرعام پر آرہا ہے۔
مولانا سفیان احمد قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند،پروفیسر سفیان بیگ پرنسپل انجینیرنگ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،مفتی زاہدعلی خان مظاہری شعبہ دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،مولانا محمد عارف ابراہیمی رکن شوری مظاہرعلوم سہارنپور،مولانا عبداللہ معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند ،مولانا محمد مکریا نانوتوی رکن شوری دارالعلوم وقف دیوبند نیز تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داران مولانا عبدالرشید مرزاپور پول،مولانا محمد طاہر رائے پور،مولانا محمد ہاشم چھٹمل پور،مولانا محمد عاقل صدر جمعیة علماءمغربی یوپی،مولانا محمد الیاس پپلی مزرعہ،مولانا محمد اختر ریڑھی،حاجی عبدالرحمن امیر جماعت یمنا نگر،مولانا فضیل احمد ناصری معہد الانور دیوبند،مولانا حسین احمد پانڈولی مفتی نجٹ الہدی مرشدآبادی ،شاہ محمود چیرمین بہٹ،سرفراز خان،مظاہرحسن مکھیا،چودھری لیاقت ایڈوکیٹ،انور علی ایڈوکیٹ،پرم بتراڈائرکٹر ہیندس ٹو کیئر ویلفیر سوسائٹی،کارتک کھرانا،وجے دتّہ،کمل چُگ،نمن سچدیوا،عبدالعلیم،چودھری سنجے پردھان ٹوڈر پور،چودھری جنک سنگھ پردھان بھوکڑیجیسی اہم علمی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔اجلاس کے داعی مولانا سید محمد شاہد الحسنی نے آخر میں تمام مہمانان کرام کا شکریہ ادا کیا ،جامعہ مظاہرعلوم کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث مولانا سید محمد عاقل کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔