چھوٹے اویسی کی بڑھیں گی مشکلیں، ایک اور فوجداری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم


ہماری دنیا بیورو


حیدرآباد، 22 نومبر۔  چندریان گٹا اسمبلیحلقہ کے ممبر اسمبلی اور آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے اسمبلی اراکین کے لیڈر اکبر الدین اویسی کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کو لے کر فوجداری مقدمہ درج کرنے کے لئے 14 ویں چیف مےٹروپالیٹن مجسٹریٹ نے پرانے شہر کی سےدآباد پولیس کو احکامات جاری کیے ہیں۔ 
اکبرالدین کے ذریعہ جولائی میں کریم نگر شہر میں دیے گئے اشتعال انگیز بیان کے خلاف ایڈووکیٹ کروناساگر نے عدالت میں عرضی دائر کی تھی، جس پر سماعت کے دوران عدالت نے تعزیرات ہند کی دفعہ 153 (A)، 153 (بی) اور 506 کے تحت اکبرالدین کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ پولیس نے کہا ہے انہیں عدالتی حکم کی وصولی کے بعد اس حکم پر عمل کیا جائے گا۔ عدالت نے رکن اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کر 23 دسمبر تک رپورٹ دینے کے لئے پولیس کو حکم دیا ہے۔ 
ایڈووکیٹ کرونا ساگر نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ 24 جولائی کو کریم نگر میں منعقدہ جلسہیاد فخر ملت پروگرام سےخطاب کرتے ہوئے اکبر الدین اویسی نے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے سلسلے میں بیان بازی کی تھی۔ اس سے پہلے اکبرالدین نے اپنی تقریر میں نومبر 2012 کے دوران نرمل کے ایک جلسے میں کی گئی اشتعال انگیز بیان بازی کو دوبارہ دہرایا تھا۔ 
اس سے پہلے 2012 میں نرمل پولیس نے جرم نمبر 04-2013 کے تحت تعزیرات ہند کی دفعہ 120 (بی)، 121، 124 (A)، 153 (A)، 295 (اے) اور 505 کے تحت مقدمہ درج کر اکبرالدین کو گرفتار کر عدالتی حراست میں جیل بھیجا تھا۔ کروناساگر نے کہا ہے کہ جیل جانے کے باوجود اکبرالدین کی بیان بازی میں تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے وہی باتیں دوبارہ دہرائیں۔ 
اس دوران کل کرناٹک کی خصوصی عدالت نے غداری کے معاملے میں اکبرالدین اویسی کو ایک اور کیس میں بری کر دیا۔ خصوصی جج رام چندر ہدر نے امیش جامبھاجی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اکبرالدین اور دیگر 33 کو رہا کر دیا۔ اکبرالدین کے وکیل کا کہنا ہے کہ غداری کے الزام پولیس نے فوجداری مقدمہ درج کیے جانے کے پانچ دن بعد شامل کیا اور ممبر اسمبلی پر مقدمہ چلانے سے پہلے کوئی اجازت نہیں لی گئی، کیونکہ وہ اس وقت کے غیر منقسم آندھرا پردیش کے رکن اسمبلی تھے۔ اکبرالدین پر الزام لگا تھا کہ وہ اپنے حامیوں کے ساتھ ملک کے خلاف نورڈھابا ، ہمن آباد تعلقہ بیدر ضلع کرنٹکا میں نعرے لگائے اور اشتعال انگیز تقریر کی۔ خصوصی عدالت نے کہا ہے کہ اس معاملے میں جانچ ایجنسی کی طرف سے دی گئی تصویر اور دستاویز پر واقعہ کی تاریخ نہیں درج کی گئی اور چارج شیٹ سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ کچھ ملزمین کے نام ہٹا دیے گئے اور کچھ کے نام شامل کر دیے گئے۔ درخواست گزارجامبھاجی نے کہا کہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔