لیجئے سپریم فیصلہ بھی آگیا


لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ ایسے تنازعے پھر نہیں اٹھیں گے 



  م - افضل        
بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ یا یوں کہیں کہ اجودھیا تنازعہ کا ڈراپ سین ہوگیا۔ آئینی بینچ کے پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ مندر کے حق میں دے دیا۔ سارے ثبوت وشواہد کی جگہ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو سب سے بڑی سند تسلیم کرلیا گیاجس میں مندر توڑ کر مسجد تعمیر کرنے کا ذکر تو نہیںتھا مگر یہ ضرور کہا گیا تھا کہ کھدائی کے دوران جو باقیات ملے وہ کسی مندر کے ہیں اور اس بات کو بنیاد بناکر بابری مسجد اور اس سے متصل تمام اراضی کو رام للا براجمان کے حوالہ کردیا گیا۔ یہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا ہے۔ اس معاملہ میں مسلم فریقین کا شروع سے یہ موقف رہاہے کہ ہم عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے۔ اور جب یہ معاملہ حتمی فیصلہ کے لئے سپریم کورٹ پہنچا تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے اسی موقف کو دوہرایا تھا۔
جمعیة علماءہند کے صدر مولاناسید ارشد مدنی مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور اس معاملے میں سپریم کورٹ شواہد اور قانون کی بنیاد پر جو فیصلہ دے گی اسے احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ گزشتہ6نومبر کو انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اس بات کو دوہرایا تھا اور اب فیصلہ کے بعد ان کا جو ردعمل آیا ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ فیصلہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ اقتدار اعلیٰ ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دعوے کومضبوط کرنے کے لئے ہم جو کرسکتے تھے وہ کیا اورہم اسی بنیاد پر پرامید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ واضح ہو کہ جمعیة علماءہند اس مقدمے کوفریق اول کی حیثیت سے لڑرہی تھی۔ دوسرے فریق سنی سینٹرل وقف بورڈ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلہ سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔جامعہ مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے فیصلہ آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس میں کہا کہ ہم یہ بات کہتے آئے ہیں کہ عدالت کا جوفیصلہ ہوگا ہم اسے قبول کریں گے۔اس لئے اب ہمیں عدالت کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ریویو پٹیشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ سوال مسلم پرسنل لاءبورڈ سے کیا جانا چاہئے۔ لیکن ماضی میںاگر پرسنل لاءبورڈ کے کردار کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا ہے اور میری ذاتی رائے ہے کہ اب ریویو پٹیشن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بحث کے دوران اخبارات میں جو رپورٹیں آتی رہیںانہیں پڑھ کر بخوبی اس بات کی تائید کی جاسکتی ہے کہ وکلاءنے اور خاص طور پر ڈاکٹر راجیو دھون نے زبردست بحث کی اور مضبوطی سے اپنی دلائل رکھے۔معاملہ کوتاہی کا ہرگز نہیں ہے بلکہ سیدھے سیدھے آستھا کا ہے اور اسے اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فیصلہ کے بطن سے کئی ایسے کئی سوال کھڑے ہوئے ہیں جن کا دور دور تک کوئی جواب نظر نہیں آتا۔فیصلہ میں کہا گیا کہ اجودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہندوو ¿ں کی آستھا کا معاملہ ہے اوراس پر کوئی تنازعہ نہیں ہے اور اس کے بعد فیصلہ سنادیاگیا کہ متنازعہ اراضی شری رام جنم بھومی نیاس کو دی جائے گی۔ حالانکہ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تھا اس وقت بھی عدالت نے کہا تھ اکہ معاملہ آستھا کا نہیں ملکیت کا ہے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران بھی فاضل ججوں کی طرف سے یہی بات کئی مرتبہ دوہرائی گئی تھی اور اب فیصلہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ ملکیت کا فیصلہ آستھا کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف طرف کہا گیا کہ اجودھیا میں بھگوان رام کا جنم ہندوو ¿ں کی آستھا کا معاملہ ہے۔ اس حوالہ سے فیصلہ میںکہا گیا ہے کہ اس معاملہ میں صرف آستھا کی بنیاد پر مالکانہ حق کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن تاریخی شواہد سے اشارے ملتے ہیں کہ ہندو مانتے رہے ہیں کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش اجودھیا ہے۔
فیصلہ میںیہ بھی کہا گیا ہے کہ1949میں مسجد کے اندر جبراً مورتیوں کا رکھاجانا غیرآئینی فعل تھا۔ اسی طرح6دسمبر1992 کو بابری مسجدکاانہدام غیر قانونی اور غیرآئینی تھا اوراس طرح کا واقعہ سیکولر ملک میں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ گویا عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ یہ دونوں کام غلط تھے اور غیرآئینی بھی، مگر دوسری طرف جن لوگوں یا تنظیموں نے یہ غیر قانونی اور غیر آئینی فعل انجام دیا،متنازعہ جگہ کا مالکانہ حق بھی انہیں دے دیاگیا۔ عدالت نے تسلیم کیاکہ دسمبر1949تک یعنی جب رات میں جبراً مسجد کے اندر مورتیاں رکھی گئیں،مسلمان جمعہ کی نمازادا کرتے رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اس کے بعد مسجد پر تالا ڈال دیا گیا تھا اور مسلمانوں کا وہاں جانا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا تھا مگر فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ انگریزوں کے دور میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہاںنماز پڑھی جاتی تھی۔ فیصلہ کی یہ عبارت بھی قابل ذکر ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی شق142 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سابقہ میں کئی گئی غلطیوں کی اصلاح کرے۔یہاں غلطیوں کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم آگے کی عبارت میں کہاگیا ہے کہ اگر عدالت مسلم کمیونٹی کی اہمیت کو نظرانداز کرے گی تویہ انصاف نہیں ہوگا، جنہیں قانون کے پابند سیکولر ملک میں ناجائز طریقہ سے ان کی مسجد کے ڈھانچہ سے محروم کردیاگیا۔ آگے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی (یعنی مسلمانوں کی) عبادت کے مقام کو غیرقانونی طریقہ سے منہدم کرنے کے لئے مسلم فریق کی تلافی ضرورکی جائے گی اور مسلمانوں کو دی جانے والی راحت کی نوعیت کا جائزہ لینے کے بعد ہم سنی سینٹرل وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین الاٹ کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس حوالہ سے کہا گیا ہے کہ یہ زمین مرکزی حکومت کے زیر قبضہ اراضی یا اترپردیش حکومت سے اجودھیا شہر کی حدود میں دی جاسکتی ہے۔


ہاں! فیصلہ قبول ہے!!۔


سپریم کورٹ کے سابق جج نے بھی بابری مسجد معاملے میں سپریم فیصلہ پر اٹھایا سوال


بابری مسجد حق ملکیت :جانئے! فیصلہ کے بعد مولانا سید ارشد مدنی کا کیا ہے رد عمل



فیصلہ کی یہ عبارتیں اس بات پر دلالت ہیں کہ مسلمانوں کے دعوے کو عدالت نے یکسر خارج نہیں کیا ہے۔ فیصلہ ملک کے موجودہ حالات کو ذہن میں رکھ کر دیاگیا ہے۔ اس سچائی سے بہر حال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتاتو ملک میں امن وسکون کی جوفضا دیکھی جارہی ہے درہم برہم ہوجاتی اور اس فیصلہ کا حشر بھی سبری مالامندر کے فیصلہ جیسا ہوتا۔ پچھلے چھ سال کے دوران مذہبی شدت پسندی اور اکثریت کی بالادستی کو جس طرح خطرناک حد تک بڑھاوا دیا گیا ہے اس کے پیش نظر عدالتی فیصلہ کے بعد بھی مسلمان اس جگہ ایک اینٹ نہیں رکھ سکتے تھے۔ عدالت کے فیصلہ کامکمل متن پڑھنے کے بعد اس نکتہ کو سمجھا جاسکتا ہے کہ اس طرح کا فیصلہ کیوں آیا؟ لیکن اس فیصلہ کے بعد اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آئندہ اس طرح کے معاملے دوبارہ نہیں اٹھیں گے۔ فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے ایسی مسجدوں، درگاہوں اور عید گاہوں کی فہرست 300سے زائد ہیں جن کے بارے میںان کا کہنا ہے کہ ہندومذہبی عبادت گاہوں یا مقامات پر ان کی تعمیر ہوئی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کو لے کر پہلے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ اس طرح متھراکی ایک عید گاہ پر بھی تنازعہ ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کرشن جنم استھان ہے۔ چنانچہ اگر کچھ لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ اب اس تنازعہ کے بعد اس طرح کا کوئی دوسرا مذہبی تنازعہ کھڑا نہیں ہوگا وہ شاید غلطی پر ہیں۔
فاضل عدالت کو اس معاملہ میں فیصلہ دیتے ہوئے اس پہلوکو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے تھا۔ عدالت اگر یہ بات بھی فیصلہ میں جوڑ دیتی کہ اب اس کے بعد اس طرح کا کوئی تنازعہ ملک میں پیدا نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی پیدا کرے گا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی تو شاید آگے کے لئے اس کا یہ تبصرہ ایک مضبوط نظیر بن سکتا تھا۔ بہت سے لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ 1991میں نرسمہاراو سرکار نے ایک قانون منظور کیا تھا جس میں کہاگیا تھا کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر ملک کی تمام عبادت گاہوں کی1947والی پوزیشن بحال رکھی جائے گی اور ان کے ساتھ کسی طرح کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی۔ عدالت نے اس جانب سے ہلکا سااشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قانون کو عمل میں لایا جانا چاہئے۔توپھر مستقبل میں اس طرح کے تنازعات کے اٹھنے کا خدشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا اور ہماری آنے والی نسلیں امن وسکون کے ساتھ زندہ رہ سکتی تھیں اور ملک میں امن واتحادکو بھی کسی حد تک دوام حاصل ہوسکتا تھامگر مذہبی تنازعات کے دہانوں کو کھلاچھوڑ دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے بھی مذکورہ قانون کے تعلق سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔بہر حال فیصلہ کے بعد ملک بھر میں امن ویکجہتی کی فضا قائم رہی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔یہ خوش آئندبات ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ مسلمان اب جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے لگے ہیں۔


 


Popular posts
उन्होंने साथ ही देशवासियों से निवेदन करते हुए कहा कि मेरी एक और प्रार्थना है कि इस आयोजन के समय किसी को भी, कहीं पर भी इकट्ठा नहीं होना है। रास्तों में, गलियों या मोहल्लों में नहीं जाना है, अपने घर के दरवाजे, बालकनी से ही इसे करना है।
 جشن تکمیل حفظ قرآن:یہ بچے بنے حافظ قرآن، جان کر آپ کو بھی ہوگا فخر،والدین کو لوگ پیش کررہے مبارکباد
Image
دہشت گردوں کوفنڈنگ کرنے والی کمپنی سے بی جے پی نے لیا 10 کروڑ کا چندہ
Image
अमेरिकी दूतावास के प्रवक्ता ने इंडिया टुडे को बताया कि वो भारतीय स्वास्थ्य अधिकारियों के संपर्क में हैं. नई दिल्ली दूतावास के एक कर्मचारी के कोरोना वायरस की चपेट में आने की जानकारी है. हम भारतीय स्वास्थ्य अधिकारियों के साथ मिलकर इस कर्मचारी को उचित उपचार उपलब्ध कराने की कोशिश कर रहे हैं.
Image
आदेश में इस कार्रवाई का कारण नहीं बताया गया है लेकिन माना जा रहा है कि कोरोना वायरस के संक्रमण की आशंकाओं को खत्म करने के लिए यह कदम उठाया गया है। ऐसा ही आदेश गाजियाबाद और गौतमबुद्ध नगर के डीएम ने भी जारी किए हैं। राज्य सरकार ने सभी स्कूल और कॉलेज को बंद करने का निर्देश जारी किया गया था। उत्तर प्रदेश में इस वायरस से कुल 12 लोग संक्रमित पाए गए हैं। इसमें 11 भारतीय नागरिक हैं जबकि एक विदेशी शामिल व्यक्ति शामिल है। इनमें से ज्यादातर लोगों का इलाज दिल्ली के सफदरजंग अस्पताल में चल रहा है।