ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی،12نومبر:اجودھیا میں سپریم کورٹ کے ذریعہ سے رام جنم بھومی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے مرکز کی طرف سے قائم ایک ٹرسٹ کو ٹرانسفر کرنے والے فیصلے کے دو دن بعد اس کی نوعیت کے بارے میں بیان بازیاں شروع ہو چکی ہیں۔ 1990 کی دہائی میں مندر تحریک کے بڑے چہروں میں شمار اور رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس نے پیر کو 'دی انڈین ایکسپریس' کو بتایا کہ نیا ٹرسٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے'ٹرسٹ' کو ہی ایک ٹرسٹ بنایا گیا ہے اور نرموہی اکھاڑا جیسے دیگر لوگ اس کام کو پورا کرنے کے لئے اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
لیکن، نرموہی اکھاڑا کے مہنت دینیندرداس اس بات سے متفق نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہہم ان کے خلاف لڑ رہے ہیں یعنی 'رام جنم بھومی ٹرسٹ کے خلاف'۔ایسے میں کوئی کس طرح سوچ سکتا ہے کہ ہم ان کے ٹرسٹ کارکن بن سکتے ہیں؟ وہ اپنے ٹرسٹ کو حوالے کر کے ہمارے ساتھ ٹرسٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ہم نرموہی ہیں اور ان کا کبھی بھی حصہ نہیں بن سکتے۔ یہ حکومت کے اوپر ہے کہ وہ حل تلاش کرے اور سب کو ایک ساتھ لائے۔
ہندوؤں کے اس بڑے مذہبی رہنما نے اجودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے کیا انکار
سپریم کورٹ کے سابق جج نے بھی بابری مسجد معاملے میں سپریم فیصلہ پر اٹھایا سوال
سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اس تنظیم کو بھی اعتراض، انصاف کیلئے اٹھائے گی آواز
غور طلب ہے کہ ہفتہ کو اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے بھگوان کی سیوا اور جائیداد کے انتظام کے حقوق کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا، لیکن، بینچ نے متنازع مقام پر 'نرموہی اکھاڑے کی تاریخی موجودگی اور ان کے کردار' پر توجہ دیتے ہوئے مرکز کو ہدایت دی کہ ٹرسٹ بنانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کرتے ہوئے، اکھاڑے کو 'مینجمنٹ میں ایک مناسب رول' دے۔
ان کے علاوہ دگمبر اکھاڑے کے سربراہ مہنت سریش داس بھی ٹرسٹ کے معاملے پر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں۔ غور طلب ہے کہ دگمبر اکھاڑہ ایک وقت میں اجودھیا کا سب سے زیادہ بااثر اکھاڑا تھا۔ اس کے پہلے سربراہ پرمہنس رام چندر داس تھے اور وہ ٹرسٹ کے صدر بھی تھے۔ پرمہنس رام چندر داس ٹرسٹ کے چیئرمین اپنی موت کے وقت تک (2003) رہے۔ دگمبراکھاڑا کا کہنا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے کسی موجودہ ٹرسٹ کو ذمہ داری نہیں دی جانی چاہئے۔اگرچہ، ٹرسٹ کے سربراہ مہنت گوپال داس نئے ٹرسٹ کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہکس لئے بنائیں گے، کون بنائے گا اور کون اس میں رہے گا؟ کیا ضرورت ہے؟ ۔