ہماری دنیا بیورو
لکھنو:17نومبر:اجودھیا معاملہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مندر کے حق میں جانے کے بعد اتوار کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے اس معاملہ پر میٹنگ کی۔ یہ میٹنگ لکھنو ¿ کے ممتازپی جی کالج میں ہوئی۔ میٹنگمیں بورڈ کے صدررابع حسن ندوی سمیت اسد الدین اویسی اور ظفریاب جیلانی بھی موجود رہے۔میٹنگ کے دو اہم ایجنڈے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست لگائی جائے یا نہیں اور مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین قبول کی جائے یا نہیں تھے۔میٹنگ ختم ہو گئی ہے، جس کے بعد دوپہر 3.30 بجے پریس کانفرنس میں باضابطہ فیصلے کے بارے میں بتایا جائے گا۔
اس دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی میٹنگ پرجمعیة علمائے ہند کے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اجودھیا معاملے پر ہماری پٹیشن 100 فیصد مسترد ہو جائے گی۔ لیکن ہمیں ریویو پٹیشن ڈالنی چاہئے، یہ ہمارا حق ہے۔یہمیٹنگ اگرچہ پہلے لکھنو ¿ کے ندوہ کالج میں منعقد ہونی تھی، لیکن اچانک اجلاس کی جگہ بدلی گئی اور ممتازپی جی کالج میں میٹنگ رکھی گئی۔ اس میٹنگ میں مولانا محمود مدنی، ارشد مدنی، مولانا جلال الدین عمری، مسلم لیگ کے ایم پی بشیر، خالد رشید فرنگی محلی، اسد الدین اویسی، ظفریاب جیلانی، مولانا رحمانی، ولی رحمانی، خالدسیف اللہ رحمانی اور رابع حسن ندوی موجود رہے۔
مجلس عاملہ کے پینل کی سفارش پر جمعیة علماءہند بابری مسجد فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن داخل کرے گی:مولانا ارشد مدنی
دوسری جانب بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کا جائزہ لینے والی جمعیةعلماءہند کی ورکنگ کمیٹی کی تشکیل کردہ پانچ نفری پینل نے وکلاءاور ماہرین قانون سے صلاح و مشورہ کے بعد بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میںسپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ریویو پٹیشن داخل کرنے کا آج فیصلہ کیا جوکہ صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی ،مولانا حبیب الرحمن قاسمی ، مولانا سید اسجد مدنی، فضل الرحمن قاسمی اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اعجاز مقبول پرمشتمل پینل نے ریویو پٹیشن کے تمام ممکنہ پہلووں پر غور کیا۔پینل نے کہا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن قانونی طور پر یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے اس لئے کہ ابھی نظر ثانی( روویو )کا آپشن موجود ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو عدالت سے رجوع ہونا چاہئے؛ کیونکہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل فیصلہ میں عدالت نے مسلمانوںکے بیشتر دلائل کو قبول کیا ہے ۔ جہاں قانونی آپشن موجود ہے وہیں شرعاً بھی یہ ضروری ہے کہ آخری دم تک مسجد کی حصول یابی کے لیئے جدوجہد کی جائے ۔
مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے مسلمانوں کے ماتھے پر لگا یہ داغ دھل گیا کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کی تعمیر رام مندر توڑ کر کی تھی ، محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ نے واضح کردیا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر نہیں کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ1949میں غیر قانونی طریقے سے مسجد کے باہری صحن سے مورتی اندر رکھی گئی اور پھروہاں سے اندرونی گنبد میںمنتقل کی گئی جب کہ اس دن تک وہاں نماز کا سلسلہ جاری تھا۔ اور6 دسمبر 1992 کو شرپسندوں کے ذریعہ شہید کیا جانا بھی غیر قانونی عمل تھا ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی مانا ہے اور ہائی کورٹ نے بھی مانا تھا کہ مسلمانوں کے ثبوت کم سے کم 1857 کے بعد سے 1949 تک بابری مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔تقریبا یہ نوے سال ہوتے ہیں،تو اگر نوے سال تک ہم نے اگر کسی مسجد میں نماز پڑھی ہے تو اس مسجد کی زمین کو ہمیںنہ دیکر مندر کو دینے کا کیا مطلب ہے۔یہ چیز ہماری سمجھ سے پرے ہے۔
مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم ماہرین قانون نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کیاہے ، سپریم کورٹ سے 2012 میں سبکدوش ہونے والے جسٹس گانگولی نے کہا کہ اگر بابری مسجد شہید نہیں ہوتی اور ہندو سپریم کورٹ سے رجو ع ہوتے اور کہتے کہ رام کا جنم استھان مسجد کے اندر ہے تو کیا عدالت مسجد کو شہید کرنے کا حکم دیتی ؟ عدالت ایسا نہیں کرتی تو پھر آج عدالت نے ایسا فیصلہ کیوں دیا ؟ ان سب جیسے سوالات عدالت کے سامنے دوبارہ پیش کرنےکے لیئے نظر ثانی کی درخواست عدالت میں داخل کرنا ضروری ہے ۔پانچ رکنی آئینی بینچ نے اپنے فیصلہ میں مورتی کو فریق نہیں قبول کیا ہے اس کے باوجود فیصلہ ہندوﺅں کے حق میں دے دیا گیا جو ناقابل فہم ہے۔
صدر جمعیة علماءہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ریویو پٹیشن کے ذریعہ شاذ و نادر ہی فیصلے تبدیل کیئے جاتے ہیں لیکن ہمیں جو قانونی طورپردستیاب آپشن اس کو استعمال کرنا چاہئے ،۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عدالت نے آئین ہند کے آرٹیکل 142 کے تحت اسے حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے تب بھی یہ معقول فیصلہ نہیں ہے کیونکہ متذکرہ آرٹیکل کے ذریعہ ثبوت و شواہد کی روشنی میں مکمل انصاف کیئے جانے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ اس معاملہ میں مکمل انصاف ہوا ہی نہیں کیونکہ مسلمانوں کے بیشتر دلائل قبول کرنے کے باوجود عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے جو مسلمانو ں کے خلاف اور ہندوﺅں کے حق میں ہے ۔مسلمان مسجد منتقل نہیں کرسکتا لہذا متبادل اراضی لینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔بابری مسجد کے حقوق کے لئے جمعیة علماءہند برسوں سے کوشاں ہیں اور ملک کی سلامتی اور انصاف کے لئے آخری حد تک کوشش جاری رہے گی ۔
واضح رہے کہ30 ستمبر2010 الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد 23 اکتوبر 2010 کو جمعیة علماءہند کی ورکنگ کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہئے اور صدر جمعیةعلماءہند مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر سب سے پہلے الہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی جس کا عرضداشت کا نمبر Civil Appeal Nos. 10866-10867 of 2010 ہے۔