ہماری دنیا ڈیسک
نئی دہلی، 17 نومبر:آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے بابری مسجدمعاملے پر فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست (ریویو پٹیشن) دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے کہا کہ ہم کو مسجد کے بدلے دوسری جگہ پر دی جانے والی 5 ایکڑ زمین منظور نہیں ہے۔ ہم دوسری زمین حاصل کرنے کے لئے عدالت نہیں گئے تھے، ہمیں وہی زمین چاہئے، جہاں پر بابری مسجد بنی تھی، اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق ہے؟
اس معاملے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 137 کے تحت سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق ملا ہے۔ یہ حق صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کے علاوہ ہندوستان کی کسی بھی کورٹ یا ٹربیونل کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ جتیندر موہن شرما نے بتایا کہ اجودھیا کیس کے فریق ثانی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
بابری مسجد معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظرثانی کی عرضی داخل کرے گا مسلم پرسنل لاءبورڈ
مسلم پرسنل لاءبورڈ کی میٹنگ سے قبل ہنگامہ، بدلی گئی میٹنگ کی جگہ
جمعیة علماءہند بابری مسجد فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن داخل کرے گی:مولانا ارشد مدنی
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست فیصلہ آنے کے ایک ماہ کے اندر داخل کرنی ہوتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما نے کہا کہ سپریم کورٹ میں داخل ہونے والی 99.9 فیصد نظر ثانی کی عرضیاں مسترد ہو جاتی ہیں۔ صرف 0.1 فیصد نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نظر ثانی کی عرضی سپریم کورٹ کی اسی بینچ کے سامنے داخل کی جاتی ہے، جس نے فیصلہ سنایا ہے۔جب سینئر ایڈوکیٹ جتیندر موہن شرما سے سوال کیا گیا ہے کہ بابری مسجد کیس پر فیصلہ سنانے والے چیف جسٹس رنجن گوگوئی ریٹائر ہو رہے ہیں، تو کیا اس معاملے کی نظر ثانی درخواست کے لئے نئی بنچ قائم کیا جائے گا، اس پر سینئر ایڈووکیٹ شرما نے کہا کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی جگہ بینچ میں دوسرے جسٹس کو شامل کیا جائے گا، اگرچہ باقی بنچ میں شامل 4ججز وہی رہیں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر جتیندر موہن شرما نے یہ بھی بتایا کہ اگربابری مسجد معاملے میں نظر ثانی کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، توکیورےٹو پٹیشن داخل کی جا سکتی ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ کے 5رکنی ججز کی بنچ نے بابری مسجد کی جگہ 9 نومبر کو رام للا براجمان کودینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ساتھ ہی سنی وقف بورڈ کو اجودھیا میں ہی الگ سے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ مختلف زمین دینے کا فیصلہ آرٹیکل 142 کے تحت ملے حق کا استعمال کرتے ہوئے دیا تھا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اجودھیا کیس کے فریق نرموہی اکھاڑا اور شیعہ وقف بورڈ کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا۔