بابری مسجد ملکیت پر عدالت عظمی کے فیصلہ کے بعد بھی تمام فریقوں کو ملے گا ایک اور موقع


ہماری دنیا بیورو


نئی دہلی: اجودھیا میں بابری مسجد تنازعہ کا فیصلہ کل یعنی ہفتہ کو آئے گا۔فیصلہ کو دیکھتے ہوئے نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ سیکورٹی کے پیشِ نظر اجودھیا کوچھاونی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ فیصلہ کے سلسلے میں جہاں انتطامیہ پوری طرح مستعد ہےتو وہیں لوگ اس بات کو لے اتاولے ہو رہے ہیں کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو آگے کا کیا راستہ ہوگا۔


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت میں پانچ ججوں کی بینچ نے 40 دن مسلسل سماعت کی ہے۔ جسٹس رنجن گگوئی کے اس بینچ میں ان کے علاوہ جسٹس اروند شرد بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندر چوڈ اور جسٹس ایس عبدالنظیر بھی شامل رہے۔ بینچ نے کیس کی سماعت 6 اگست سے شروع کی اور روزانہ سماعت ہوئی۔ اب فیصلے کا انتظار ہے۔


سپریم کورٹ بابری مسجد تنازعہ پر کچھ بھی فیصلہ دے سکتا ہے۔ایسے میں آگے کی صورتحال کیا ہوگی، کیا یہ آخری فیصلہ ہوگا،اور سبھی فریقوں کو اس فیصلہ پر رضامندی دینی ہوگی۔


عدالت کے فیصلے کے سبھی فریقوں نظرثانی کی عرصہ داخل کرنے کا موقع رہے گا۔ کوئی بھی فریق فیصلے کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی عرضی داخل کرسکتا۔ جس پر بینچ سماعت کرسکتی ہے۔ حالانکہ کورٹ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ نظرثانی کی عرضی کی سماعت عدالت میں کرے یا چیمبر میں۔


بینچ اپنی سطح پر اس عرضی کو خارج بھی کرسکتی ہے۔ یا پھر اسے اوپرکی بینچ کو بھیج سکتی ہے۔ حالانکہ عدالت کے فیصلے کی اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ بینچ اپنی سطح پر ہی فیصلہ لے لیتی ہے۔