اسلام سماجی انصاف اور برابری کا مذہب ہے


عبداللہ 
 نائی کی منڈی، آگرہ، یوپی
اسلام انصاف اور مساوات کا مذہب ہے۔بغیر کسی کے حقوق کو نقصان پہنچائے یہ ہر ایک فرد کے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام میں روحانی روشنی نمایاں ہوتی ہے اور اس میں نسلی اونچ نیچ کاکوئی شائبہ نہیں۔اسلام کے پانچ ستون ہیں ، جن میںپوجا اور عبادت کے لائق اللہ کاعقیدہ رکھنا اور حضرت محمد کے رسول او رپیغمبر ہونے کی شہادت دینا ہے۔ دوسرے نماز، تیسرے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھناہے، جس میں نہ صرف یہ کہ بندے کوصبح سے شام تک نہ صرف کھاناپینا چھوڑنا پڑے گا بلکہ سماج کے تمام حقوق کاخیال رکھتے ہوئے زبان کو سنبھالے رکھناپڑے گا۔ چوتھے، زکوة دینا ہے جس میں آدمی کواپنی کمائی کا سالانہ 2.5 فیصد غریبوں اور محتاجوں کیلئے دینا ہے۔ اسلام کے ستون میں سے پانچوان ستون حج ہے۔ حج بیت اللہ کا مطلب ہے کہ انسان اپنی گاڑھی کمائی سے اس اسلامی رکن کوادا کرے اور دل ودماغ صاف کرلے کہ اسے اب ہمیشہ پاکیزہ رہنا ہے، ہرایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہے اور جہاں انصاف کی بات آئے ایمانداری کرنی ہے تاکہ اس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری نہ۔
 اپنے عقیدتمندوں سے اسلام کا مطالبہ رہتا ہے کہ انسان اپنے مقاصد کی تکمیل کے دوران نیکی وپارسائی اورسنجیدگی قائم رکھے ، لوگوں کوسکھائے اور یہ کہ اپنی کمائی کو لوگوں کی فلاح وبہبود میں لگائے۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ انصاف پسند، دوسروں کے تئیں مخلص، مساوات کے علمبردار اورہم آہنگی کے رول ماڈل تھے۔ سماجی انصاف کامطلب ہے کہ کھلے دل کے ساتھ لوگوں اور سماج میں مثبت رشتوں کی فراوانی ہو،سماجی انصاف کی گہرائی کو سمجھا جائے اور بلالحاظ دین ومذہب اور اونچ نیچ بھلائی عام کی جائے۔ برابری اور عدم امتیاز ایک ایسا نظام ہے، جسے سماجی انصاف کا نام دیا جاتا ہے جو کسی بھی قانون وضوابط والی مثالی سوسائٹی کیلئے اہمہے۔ سماجی انصاف کا مطلب انسان میں صداقت ہواور سچائی اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹے اور یہی اسلام کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالی انہیں لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو ایماندار اور انصاف پسند ہوتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ ہم اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ انصاف ایک عہد اور ضروری شرط ہے خوشی کیلئے کیونکہ سماجی انصاف اور قناعت لازم وملزوم چیزیں ہیں۔