ہماری دنیا بیورو
لکھنو:لکھنو میں بابری مسجد کے سلسلے میں منعقد کی گئی دانشواران کی میٹنگ کو لیکر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے کہا کہ بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اورہماری طرف سے بابری مسجد کے سلسلے میں جو دستاویزات اور دلائل دیئے جانے تھے وہ ہم سپریم کورٹ میں پیش کرچکے ہیں۔نومبرمیں سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ صادر ہونے کا امکان ہے ۔اب اس سے پہلے بابری مسجد کے معاملہ میں ایک مرتبہ پھر سے مصالحت کی بات چھیڑنااوربابری مسجد کی جگہ حکومت کے سپرد کردینے کی بات کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے مصالحت کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی تھی جس نے مصالحت کےلئے کوشش کی اور فریقین سے مختلف مرحلوں میں گفتگو کی آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکے ذمہ داران نے بھی اس کمیٹی کی خواہش پرکمیٹی کے سامنے اپنا مو ¿قف پوری مضبوطی کے ساتھ رکھاتھا۔مصالحت کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی اوراب فریقین کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپنے اپنے دلائل پیش کئے جارہے ہیں۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ دلائل کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنائےگا،لیکن لکھنو ¿ میں منعقد کئے جانے والے مشورتی اجلاس نے ایک مرتبہ پھر شکوک وشبہات کو جنم دیا ہے اورجن حضرات نے اس کنونشن میں شریک رہ کر بابری مسجد کو حوالے کردینے کی بات کہی ہے ان کی نیت پر سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔بابری مسجد کے سلسلے میں پوری وضاحت اور صفائی سے انہوں نے اپنا یہ اسٹینڈ رکھا کہ بابری مسجد کو ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیا ہے اور افسوس ہے کہ بابری مسجد کو ڈھا دینے والے مجرم کھلے بندوں پھر رہے ہیں اور اب تک انہیں قرار واقعی سزانہیں دی گئی۔
بابری مسجد کے سلسلے میں جو کیس چل رہا ہے وہ کسی آستھا یا عقیدے کا کیس نہیں ہے بلکہ وہ ٹائٹل سوٹ کا کیس ہے،کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ زمین کس کی ملکیت ہے ایسی صورتحال میں اب سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہی مناسب راستہ ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بابری مسجد کے سلسلے میں ماضی میں بھی سودے بازی کی جوکوششیں ہوئیں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیاگیااور اب بھی جوکوششیں کی جارہی ہیں انہیں کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا ان شاءاللہ۔لکھنو ¿ کے کنونشن میں شریک ہونے والے دانشوروں کوانہوں نے یہ مشورہ دیاکہ وہ بابری مسجد کے معاملے میں اظہار خیال مشورتی اجلاس میں کرنے کے بجائے ملک میں پھیلتی ہوئی بدامنی معاشی بحران،کرپشن اور اخلاقی دیوالیہ پن کو روکنے کی کوششوں میں لگ جائیں،یہ ان کے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی زیادہ مفید ہوگا۔