نئی دہلی:ہماری دنیا بیورو
ہریانہ اور مہاراشٹر میں انتخابات کے نتائج کا اعلان جاری ہے ۔ اس درمیان نتائج نے بی جے پی کی یکطرفہ جیت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔مہاراشٹر میں بی جے پی کی حالت مستحکم ضرور نظر آ رہی ہے لیکن ہریانہ میں اس کی حالت دیگر گوں ہیے۔ علاقائی پارٹیوں نے بی جے پی کے خلاف زبر دست مظاہرہ کیا ہے۔اس میں ایک نام ابھر کر سامنے آیا ہے دشینت چوٹالہ ۔ چوٹالہ کی ہاتھ میں ہی اب ہریانہ سرکار کی چابی ہے۔ہریانہ میں کانگریس کی حکومت بنے گی یا بی جے پی اپنی سرکار بچا پائے گی۔یہ فیصلہ دشینت چوٹالہ کے ہاتھ میں ہے ۔
مختصر سی مدت میں دشینت چوٹالہ نے ہریانہ کی سیاست میں کمال کر دکھایا ہے ۔گزشتہ سال دسمبر میں انہوں نے ے جے پی کے نام سے اپنی نئی پارٹی بنائی تھی۔ ہریانہ کے قدآور سیاسی خاندان کے وارث اور حالیہ اقتدار کے کنگ میکر دشینت کو سیاست وراثت میں ملی ہے۔ ان کے پردادا اور سابق نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال تاو ¿ کے نام سے مشہور تھے۔. انتخابات سے پہلے دشینت کی پارٹی کو مخالف پارٹیوں نے ہلکے میں لیا تھا،اور انہیں بچہ پارٹی قرار دیا تھا لیکن چند مہینوں میں ہی دشینت دیوی لال کی وراثت کے وارث بنتے نظر آ رہے ہیں۔
دشینت چوٹالہ کا سفر کافی دلچسپ رہا ہے۔ دشینت چوٹالہ کا سفر 2014 کے انتخابات سے شروع ہوا۔ اس انتخاب میں انہوں نے ہریانہ جن ہت کانگریس (BL) کے کلدیپ بشنوئی کو 31,847 ووٹوں کے فرق سے ہرایا .. اس انتخاب میں وہ سب سے کم عمر رکن پارلیمنٹ بنے، اس کے لئے انہوں نے لمکا بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرایا.۔ مختصر سی مدت میں اپنی پارٹی بنانے اور زبر دست سیاسی الٹ پھیر کرنے والے ثابت ہوئے ہیں۔آج اس 'بچہ پارٹی کہی جانے والی جے جے پی سے قومی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس بھی ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ پاو ¿ں مار رہی ہیں۔
دشینت کی پیدائش 3 اپریل 1988 کو اجے چوٹالہ اور نینا چوٹالہ کے گھر ہوئی۔ دشینت ہریانہ کے سابق وزیر اعلی اوم پرکاش چوٹالہ کے پوتے ہیں۔ انڈین نیشنل لوک دل (INLD) سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے 9 دسمبر، 2018 کو جے جے پی تشکیل دی تھی۔11 مہینے پہلے چوٹالہ خاندان سے ٹوٹ کر بنی جے جے پی کی کمان نوجوان دشینت چوٹالہ کے ہاتھوں میں آئی تھی۔ ان کی پیٹھ پر والد اور سابق ایم پی اجے چوٹالہ کا ہاتھ تھا تو سبکدوش ہونے والے رکن اسمبلی ماں نینا چوٹالہ اور بھائی دگوجے چوٹالہ بھی تھے۔ آئی این ایل ڈی سے نکالے گئے 4 رکن اسمبلی بھی ساتھ کھڑے ہوئے تو دیکھتے دیکھتے جے جے پی کی تنظیم کھڑی ہوتی چلی گئی ۔ کچھ وقت کے لئے عام آدمی پارٹی سے لے کر بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) بھی ساتھ آئے لیکن، ساتھ چھوٹ گیا۔
جانئے کس نوجوان لیڈر کے ہاتھوں میں ہے ہریانہ میں اقتدار کی چابی