ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی: آج چیف جسٹس رنجن گگوئی سمیت تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے آسام میں تیار ہو رہے نیشنل رجسٹر برائے سیٹیزن( این آر سی) کے کو آرڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا کو فوراً مدھیہ پردیش ٹرانسفر کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ انصاف پر مبنی این آر سی کے لئے جد وجہد کرنے والوں کے لئے انتہائی حیران کن ہے۔ آسام میں رہنے والے حقیقی ہندوستانیوں کی شہریت کے تحفظ کے لئے ابتدا ءسے جہد مسلسل کرنے والی جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر اور رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل قاسمی نے اس معاملہ پر اپنا رد عمل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر پرتیک ہزیلا جو کہ ایک قابل آئی ا ے ایس آفیسر ہیں اور این آر سی کی تیاری کا کام بڑی تندہی سے کر رہے تھے ان کے اچانک تبادلہ سے این آر سی کی تیاری میں مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔مولانا نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں کیوں کہ ہمیں سپریم کورٹ سے ہی انصاف ملنے کی امید ہے، البتہ جو آفیسر ابتدا سے ہی این آر سی جیسے پیچیدہ پروجیکٹ کو پورا کرنے میں مصروف تھا اور اسے تمام باتوں کا تجربہ بھی حاصل تھا اسے اس آخری مر حلہ میں اس پروجیکٹ سے ہٹا کر کسی اور کو سونپنے سے خدشات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی مرتبہ ہمیں بھی ان سے اختلاف رہا ہے مگر اس کے با وجود ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے حتی الامکان انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مہینوں پہلے حکومتِ آسام اور مرکزی حکومت نے پرتیک ہزیلا سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے علاوہ کسی کی بھی بات نہیں مان رہے تھے جبکہ حکومت ان سے اپنے حساب سے کام لینا چاہتی تھی، اس کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ پرتیک ہزیلا کے ساتھ ایک اور آئی ایس آفیسر کو اس کا م کا ذمہ دار بنایا جائے مگر عدالت نے اسے نا منظور کردیا تھا۔لیکن خدا جانے ابھی ایسا کیا ہوا کہ عدالت نے اچانک مسٹر ہزیلا کے تبادلہ کا حکم صادر کر دیا کیونکہ فیصلہ سناتے وقت ججوںنے کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔
'لنچنگ':اویسی اور دگ وجے نے موہن بھاگوت کی زبان بند کردی
مولانا اجمل نے کہا کہ جمعیة علماءہند کے صدر مولانا قاری سید عثمان منصور پوری اور جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی کی زیر سر پرستی جمعیة علماءصوبہ آسام انصاف کی حصولیابی کے لئے قانونی جدو جہد جاری رکھے گی۔انہوںے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ مسٹر ہزیلا کی جگہ اسی درجہ کے کسی قابل اور انصاف پسند آفیسر کو یہ ذمہ دای سونپی جائے گی اور عدالت عظمی اس پر اپنی پوری نگرانی رکھے گی۔ واضح رہے کہ آج این آر سی کے کیس کی شنوائی جیسے ہی شروع ہوئی چیف جسٹس نے کہا ہم مسٹر پرتیک ہزیلا کا ٹرانسفر مدھ پردیش کر نے کا حکم دیتے ہیں، اس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل مسٹر کے کے وینو گوپال نے پوچھا : کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ' کوئی بھی آرڈر بغیر وجہ کے نہیں دیا جاتا'۔ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا سوال کرتا جج صاحبان عدالت سے جانے کے لئے کھڑے ہو گئے۔
آج کی شنوائی کے دوران جمعیة علماءصوبہ آسام کی جانب سے سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے،اڈووکیٹ نذرالحق مزاربھیا، اڈووکیٹ عبدالصبور تپادر ، ا ور اڈووکیٹ منصور علی وغیرہ موجود تھے جبکہ مولانا بد رالدین اجمل صاحب کی ہدایت پر مولانا منظر بلال قاسمی بھی عدالت میں حاضر تھے۔ یاد رہے کہ آسو،بی جے پی، آر ایس ایس اور مرکزی و ریاستی سرکاروں کے بے انتہا پریشر اور تنقید کے با وجود مسٹر ہزیلا نے این آر سی کی تیاری میں انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل اُن فرقہ پرستوں کو بالکل بھی پسند نہیں تھا جن کو بھرم تھا کہ کم سے کم تیس یاچالیس لاکھ مسلمانوں کا نام این آر سی میں نہیں آئے گا اسی لئے وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوںکا بار بار ویریفیکیشن ہو جبکہ ہندو ¿ں کے ساتھ رعایت کی جائے مگر مسٹر ہزیلا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ این آر سی کی فائنل لسٹ شائع ہونے سے پہلے حکومتِ آسام اور مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے مطالبہ کیا تھا کہ بارڈر کے اضلاع جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں کم سے کم بیس فیصد اور باقی اضلاع میں کم سے کم دس پرفیصد کا دوبارہ ویریفیکیشن ہو کیونکہ بہت سے بنگلہ دیشیوں کا نام آگیا ہے، مگر مسٹر پرتیک ہزیلا نے کورٹ میں یہ کہہ کر اس کی اس کی مخالفت کی تھی ہم ستائیس فیصد کا پہلے ہی دوبارہ ویریفیکیشن کر چکے ہیں اسلئے پھر سے ویریفیکیشن کا مطلب وقت برباد کرنا ہوگا،جس کے نتیجہ میں کورٹ نے سرکار کے مطالبہ کو خارج کر دیا تھا جس کے بعد نیتاﺅں اور کچھ وزارءنے مسٹر ہزیلا اور سپریم کورٹ پر بھی تنقید کی تھی اور کچھ فرقہ پرست ان کو دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔