محمد اویس/ ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی لکھنو ¿ میں منعقد اجلاس میں صاف کیا گیا ہے کہ اب بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کو بات چیت کے راستے حل کئے جانے کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ بورڈ نے کہا ہے کہ نومبر میں اس تنازعہ کا فیصلہ سپریم کورٹ سے آنے کی امید ہے، اور بورڈ نے وکلاءکے ذریعے سپریم کورٹ میں جو دستاویزات مہیا کرایا گیا ہے اس کی بنیاد پر فیصلہ مسلمانوں کے حق نے آنے کی امید ہے۔ بورڈ کی میٹنگ میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرنے اور تین طلاق بل کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔ لکھنو ¿ واقع مدرسہ ندوة العلماءمیں منعقد بورڈ کی میٹنگ کی صدارت مولانا رابع حسنی ندوی نے کی، جبکہ میٹنگ میںجنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی کے ساتھ مجلس عاملہ کے بیشتر رکن بھی موجود تھے۔
قابل ذکر ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ سپریم کورٹ میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کی روز بروز سماعت ہو رہی ہے۔نومبر کے پہلے ہفتے میں عدالت اس تنازعہ پر اپنا فیصلہ سنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ بورڈ کی میٹنگ میں سپریم کورٹ میں چل رہی بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔میٹنگ میں بورڈ کی لیگل کمیٹی نے عدالت میں چل رہے مقدمے کے بارے میں تفصیل سے رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جو ثبوت اور دلیلیں عدالت میں پیش کی گئی ہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت سے انصاف کی امید ہے۔ اجلاس میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ کا حل بات چیت کے ذریعے کچھ علماءاور دانشوروں کے ذریعے نکالے جانے پر تبادلہ خیال گیا۔بورڈ کے اجلاس میں صاف کیا گیا کہ بات چیت کے ذریعے اس معاملے کے حل کا سارا راستہ بند ہو چکا ہے۔ بورڈ کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے اور دن بہ دن سماعت کرکے سپریم کورٹ اس پر اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔ ایسی صورت میں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ بورڈ نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت میں وکلاءکے ذریعے جو دستاویزات اور دلیلیں پیش کی گئیں ہیں اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدالت سے انصاف کی امید ہے۔ ایسی صورت میں بورڈ بابری مسجد کی جگہ کو کسی بھی صورت میں ہندو پارٹی کو سونپنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔بورڈ کا یہ بھی واضح خیال ہے کہ جس جگہ ایک بار مسجد بن جاتی ہے وہ جگہ قیامت تک مسجد ہی مانی جاتی ہے۔ بورڈ کی میٹنگ میں یکساں سول کوڈ پر بھی بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ بنانے سے آئین میں دیے گئے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سارے مذہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور ان کے اپنے پرسنل لاءہیں ایسی صورت میں یکساں سول کوڈ بنانے سے آپس میں ٹکراو ¿ بڑھے گا۔میٹنگ میں تین طلاق بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی فیصلہ لیا گیا ہے۔