مولانا سید ارشد مدنی نے وقف بورڈ کے چیئر مین کو اس کی حیثیت یاد دلادی


ہماری دنیا بیورو
سپریم کورٹ میں آج جو کچھ ہوا اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے جمعیةعلماءہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ بابری مسجدکے سلسلہ مسلمانان ہند کا موقف وہی ہے جس کا اظہارجمعیةعلماءہندکی طرف سے باربارکیا جاچکاہے یعنی جو جگہ مسجد کے لئے وقف کردی جائے وہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے ، اس کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی ، اس لئے نہ تو مسلمان دست بردارہوسکتاہے اور نہ ہی کسی دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے ۔انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے ، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیارنہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدریا چیئر مین صرف اس کا منتظم اور کیر ٹیکر ہوتاہے ،مالک نہیں، یہ تولیت کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ ملکیت کے حق کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہر طرح کی مصالحت کی کوشش کے ناکام ہونے کہ بعدہی عدالت میں حتمی بحث شروع ہوئی تھی ، مگر اب آخری لمحوں میں یہ جو کچھ ہوا اس پر صرف افسوس کا اظہارہی کیا جاسکتاہے ، یہ مسلمانوں کونفسیاتی اور اخلاقی طورپر پست ہمت کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہوسکتی ہے۔


بابری مسجد ملکیت مقدمہ: ڈاکٹرراجیودھون نے دی ایسی دلیل کہ آپ بھی کہیں گے واہ


انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملہ میں ابتداہی سے حق اور انصاف کی جگہ طاقت اور زبردستی کا ہی مظاہرہ ہوتاآیا ہے۔مسجد کے اندررات کے اندھیرے میں جبراًمورتیاں رکھی گئیں ، مسلمانوں نے انصاف طلب کیا تو نماز پر پابندی عائد کرکے مسجدمیں تالالگادیاگیا ، اس کے بعد ایک مقامی عدالت کے فیصلہ کی آڑ میں تالاکھول تودیا گیا مگر مسلمانوں کو مسجد میں داخل ہونے کا حق نہیں دیا گیا اور بالآخر 6 دسمبر 1992کو تو آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اسے شہید بھی کردیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ ملک کے دستورمیں ہمیں جو اختیارات دیئے ہیں ان کا سہارالیکر ہم انصاف کی جنگ قانونی سطح پر لڑتے آئے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آئندہ بھی لڑیںگے۔ انہوں نے آگے کہاکہ مسلمان ملک کے آئین قانون اورعدلیہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرتے ہیں چنانچہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کے منتظرہیں ۔ انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ کسی وقف بورڈ یا اس کے صدرکو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ وقف شدہ آراضی کسی کو فروخت کرے یا تحفہ میں دے کیونکہ وہ صرف وقف کا نگراں اورمحافظ ہوتاہے ۔، دوسرے وقف بورڈ کی حیثیت سرکاری ہوتی ہے ، کل کو سرکاراگرچاہئے تو وقف بورڈ کو تحلیل یا ختم کرسکتی ہے تو کیا اس سے وقف اور وقف آراضی کی بھی حیثیت ختم ہوجائے گی ؟ نہیں بالکل نہیں وقف آراضی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہی وقف کے تعلق سے شریعت کے حکم میں کوئی ترمیم ہوسکتی ہے ۔ مولانا مدنی نے آخرمیں اپنے وکلاءکی ٹیم اور خاص طورپر ڈاکٹر راجیودھون ، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی خدمات کا اعتراف کیا اور ان کا اس بات کےلئے ایک بارپھرشکریہ اداکیا کہ انہوں نے نہ صرف مسجد کے حق میں ایک مو ¿ثر بحث کی بلکہ عدالت کے سامنے تمام ثبوت وشواہد بھی بہتر اندازمیں رکھے اور مخالف فریق کے وکلاءکی بحث کا معقول جواب بھی دیئے ۔